Jootay Ke Peechay Kia Hai ?

جوتے کے پیچھے کیا ہے؟
اعجاز منگی


فارسی کے عظیم شاعر فردوسی نے کہا تھا کہ:
’’اگر جواب میری مرضی کے مطابق نہیں آیا تو
میں ؛ جنگ کا میدان اور میرا گھوڑا افراسیاب‘‘
کیابھارتی اخبار ’’دینک جاگرن‘‘ کے رپورٹر جرنیل سنگھ بھی کچھ ایسا ہی مزاج رکھتا ہے !؟ جس نے بھارت کے وزیرِ داخلہ پی چدمبرم سے سوال پوچھا کہ ’’1984 کے سکھ مخالف فسادات میں مبینہ طور پر ملوث اس دور کے وزیر جگدیش ٹیٹلر کو سی بی آئی نے کلین چٹ کیوں دی ہے؟ انتخابات سے پہلے یہ کیا ہو رہا ہے!‘‘
ایک سکھ صحافی کے اس چبھتے ہوئے سوال کو گول مول کرتے ہوئے کہا کہ ’’سب سے پہلے تو میں یہ واضح کردوں کہ سی بی آئی وزارتِ داخلہ کے ماتحت نہیں۔ اس کے علاوہ جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ سی بی آئی پر حکومت کی کسی بھی وزارت نے دباؤ نہیں ڈالا۔‘‘
جب صحافی نے اپنے سوال کو مزید وضاحت سے پیش کرنے کی کوشش کی تو چدمبرم نے اپنی جان چھڑاتے ہوئے کہا کہ ’’مزید دلائل مت دو۔ تم اس فورم کو استعمال کر رہے ہو‘‘
اس طرح جب بھارتی وزیر نے صحافی جرنیل سنگھ کی زبان بند کرنے کی کوشش کی تو اس کا ہاتھ قلم کے بجائے اپنے جوتے کی طرف گیا اور اس نے آخری دلیل کے طور پر جوتا چدمبرم کی طرف پھینکا جو اس کے چہرے کے قریب سے دیکھتا ہوا چلا گیا۔
اس واقعے کی ’’بریکنگ نیوز‘‘ آنے کے بعد ہمارے نجی چینلز پر پھر ایک مباحثہ شروع ہو گیا اور چینلز کے اینکرز نے ٹیلیفون پر سینےئر صحافیوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ’’صحافی کے ہاتھوں ایک اور حکومتی عملدار پر جوتا پڑنے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟‘‘ اس سلسلے میں ہمارے ایک سینئر صحافی نے جواب دیا کہ ’’دراصل آج کل امن امان کے حالات اس قدر بگڑ گئے ہیں کہ صحافی حضرات اپنا توازن کھو چکے ہیں اور جیسا کہ وہ مظالم کا مشاہدہ کرتے ہیں اس لیی ان کے دل بہت تلخ ہوتے ہیں۔ اس لیی جب ان کو جواب مرضی کے مطابق نہیں ملتے تو وہ غصے سے بے قابو ہوجاتے ہیں اور ان سے اس قسم کے اعمال ہو جاتے ہیں‘‘
اس سلسلے میں ایک اور تجربیکار صحافی نے کہا کہ ’’صحافیوں کو اس قسم کے ردعمل کا شکار نہیں ہونا چاہئیی‘‘
جب کہ اس سوال پر ایک سینئر صحافی نے کہا کہ ’’میں صحافی کے جوتے مارنے کا مخالف ہوں۔ کیوں کہ ایک صحافی کو چاہئیی کہ وہ اپنے قلم سے جوتے مارے۔ لیکن کچھ صحافی حکمرانوں کے جوتے چاٹتے ہیں۔ اس حوالے سے میں یہ کہوں کہ جوتے مارنے والے صحافی جوتے چاٹنے والے صحافیوں سے بہتر ہیں‘‘
لیکن اس سارے مباحثے میں نجی چینل کے اینکر کا وہ بنیادی نکتہ رہ گیا جس کو سوال بنا کر وہ پوچھ رہا تھا کہ ’’آخر وہ کیا عوامل ہیں جو صحافیوں کو جوتا مارنے پر مجبور کردیتے ہیں؟‘‘
اس سلسلہ میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہر جوتے کا نمبر مختلف ہوتا ہے اس طرح اس کے مارنے کی وجوہات بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔ عراق میںجب امریکی صدر جارج بش پر جوتا پڑا تھا تو اس نے کہا تھا کہ ’’میں یہ نہیں بتا سکتا کہ اس صحافی نے مجھے جوتا کیوں مارا؟ لیکن میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ اس کے جوتے کا نمبر دس تھا‘‘ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ جارج بش کو بخوبی معلوم تھا کہ عراقی صحافی نے اس کو جوتا کیوں مارا مگر وہ اپنے بیعزتی کو ایک مذاق سے ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہوئے جوتے کا فرضی نمبر بیان کیا۔
دراصل وہ ساری ریاستیں جو عوام پر جبر کرتی ہیں اور میڈیا کو اپنے مفادات میں استعمال کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں؛ ان کے حکمران بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ہیں تو جوتوں کے حقدار مگر ایسی ہمت کوئی کوئی صحافی ہی جٹا پاتا ہے۔جارج بش پر پڑنے والے جوتے کے بارے میں ہم نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا تھا کہ اس جوتے نے بہت طویل سفر کیا تھا۔وہ جوتا ان گلیوں میں پھرا تھا جہاں کی مٹی امریکی حملوں اور عراقی خون سے گیلی تھیں۔ اس جوتے نے آزادی سے غلامی تک کا لمبا سفر کیا تھا۔ اس جوتے میں اپنے ملک کو غلام بنانے کی تلخی تھی۔ اور وہ جوتا اس حکمران کا چہرہ دیکھ کر بے قابو ہو گیا جو اتنی قتل غارت کے بعد بھی مذاق کرتا اور مسکراتا ہوا جا رہا تھا۔
جب کہ جرنیل سنگھ کے جوتے میں تاریخ کا وہ غصہ تھا؛ جو سکھوں کے قتل عام کے بعد بھارتی خالصوں کے خون میں ابھی تک ٹھنڈا نہیں ہوا۔بھارت کی حکومت ایک سکھ کو وزیراعظم بنا کر اس زخم کو رفو نہیں کرسکتی ؛ جو زخم ’’دنیا کی بڑی جمہوریت‘‘ نے سکھوں کا برا آپریشن کرکے ان لوگوں پر لگایا جن کے گھروں کی دیواروں پر گرونانک کی مورتیاں نہیں بلکہ اپنے ان پیاروں کی تصاویر بھی آویزاں ہیں جو ماورائے عدالت قتل کیی گئے۔
کتنا کرب تھا گلزار کے ان گیتوں میں جو اس نے ’’ماچس‘‘ کے لیی لکھے تھے۔
ان نوجوان سکھوں کے لیی اس بات کی اہمیت نہیں تھی کہ وہ کس سرزمین پر بنی ہوئی ٹریننگ کیمپ میں تربیت حاصل کر رہے تھے! وہ جہاں بھی تھے؛ ان کے دل میں ان گلیوں سے دوری کا درد امڈتا رہا جن گلیوں میں اس کے پیروں کے کنول گرا کرتے تھے؛جو ہنستی تھی تو اس کے دونوں گالوں میں بھنور پڑا کرتے۔ وہ جس کی کمر کی بل پر ندی مڑا کرتی تھی۔ جس کی ہنسی سن سن کر فصل پکا کرتی تھی!
محبت کی وہ کہانیاں آپریشن کی آگ میں کس طرح جل گئیں؟ اس سوال کا جواب دنیا کی کوئی بھی حکومت نہیں دے سکتی۔ کیوںکہ حکومت کے سینے میں وہ دل نہیں ہوتا جس میںاحساسات ہوتے ہیں۔ حکومت صرف سیاست کو ہی سب کچھ سمجھتی ہے۔اور سیاست مفادات کی زبان کے علاوہ اور کوئی بات سننا گوارا نہیں کرتی۔
اور جہاں تک حکومتی سیاست کا تعلق ہے وہ تو اس قدر سفاک ہوتی ہے کہ اس کے لیی مرنے والے افراد محض فگرس ہوتے ہیں۔بیس؛ تیس؛ چالیس ؛ ایک سؤ؛ سات سؤ۔۔۔۔۔! حکومت اپنے ٹارگٹ مقرر کرتی ہے اور ان کو حاصل کرنے کوہی کامیابی سمجھتی ہے۔ پھر وہ ٹارگٹ کتنے لاش گرانے کے بعد حاصل ہوتا ہے؟ اس سوال کو حکومتی سیاست بے معنی سمجھتی ہے۔ حکومت بے رحم عمل کو بولڈ ایکشن کہتی ہے۔فاشسٹ حکومت کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ اس زبان کے بارے میں ایاز نے کتنی اچھی بات کہی تھی کہ ’’فاشزم میں حرامی الفاظ جنم لیتے ہیں؛ جو ہر جائز لفظ سے اس کا حقیقی مقام چھین لیتے ہیں‘‘
مگر اندرا گاندھی کے دور حکومت میں تو نہ صرف ہندی حکومت کے ناجائز الفاظ نے جنم لیا جنہوں نے اچھے الفاظ کا میڈیا کے ذریعے قتل عام کیا بلکہ اس دور نے تو ان لوگوں سے جینے کا حق تک چھین لیا جو صبح کے سورج کو دیکھ کر دل سے کہتے تھے کہ ’’ایک اونکار ست نام‘‘!
جہاں تک سکھ مذہب کا تعلق ہے تو وہ ایک مذہب کم اور ایک کلچر زیادہ ہے۔ ہنسنے ہنسانے اور دوسروں کی خوشیوں میں بھنگڑا ڈال کر ناچنے کا کلچر! وہ کلچر گولیوں سے کس طرح چھلنی ہوگیا؟ اس سوال کا جواب بھارت کے اتہاس کو ایک دن تودینا ہوگا۔ کیوں کہ انسانی رشتوں کی سانسیں سرکاری فائل کے ساتھ بند نہیں ہوتیں۔ وہ چلتی رہتی ہیں۔ ہاں کسی کے دل کے رکنے سے اس کے جسم میں خون کی گردش بھلے رک جائے؛ لیکن انسانی خون صرف اپنے جسم تک محدود نہیں ہوتا۔ وہ دوسروں کے رگوں میں بہتا ہے۔ وہ صدیوں تک اپنے انتقام کی آگ کو سنبھال کر نسل در نسل اپنے سلسلے کو چلاتا رہتا ہے۔
بھارت کے وزیر پر جوتا پھینکنے والے صحافی کے بارے میں صرف یہ تفتیش نہ کی جائے کہ اس کا تعلق سکھوں کی آزادی کی تحریک سے تھا یا نہیں بلکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ اپنی کمیونٹی کے لیی کس قسم کے احساسات رکھتا ہے؟ اس کے دل میں سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے اپنے لوگوں کے لیی جو محبت ہے وہ صرف زمانہ حال تک محدود نہیں ہوگی بلکہ وہ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے ان افراد سے بھی محبت کرنے والا ہوگا جو ’’گولڈن ٹیمپل‘‘ کے ’’آپریشن بلو اسٹار‘‘ میں اس گولیوں کا نشانہ بنائے گئے؛ جس طرح اسپرے سے کیڑے مکوڑوں کو مارا جاتا ہے۔ اور بہادر سکھ اپنے گروؤں کی مورتیوں کے آگے اپنے خون میں تڑپتے رہے۔ سکھ مذہب کے وہ گرو جنہوں نے اپنے لوگوں کو انسان اور جانور میں فرق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ:
’’منش وہی ہے؛ اپنے کیی پر جو پچھتائے
اور پسوں ھٹ کرتے ہیں‘‘
صحافی جرنیل سنگھ کا خیال تھا کہ کانگریس حکومت کو اتنا وقت گذرنے کے بعد اب تو سکھوں کے آپریشن پر افسوس ہوا ہوگا!! اب تو وہ پسوں سے انسان بنی ہوگی!! مگر جب اس نے اس سلسلے میں سوال کیا تو وزیرِ داخلہ کے جواب سے صرف اتنا ثابت ہوا کہ کانگریس حکومت اب تک انسانی احساسات سے آشنا نہیں۔ اور اس غصے کی وجہہ سے اس صحافی کا ہاتھ اپنے جوتے کی طرف گیا۔
جب کہ بھارتی حکومت اس ’’جوتوں والی دہشتگردی ‘‘ کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ بھی دیکھے اور بیان کرے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئیی!