Idiot !

ایڈیٹ!
اعجاز منگی

وہ وقت گذر گیا جب پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں بسنے والی لڑکیاں اسلام آباد میں مقیم اپنے دوستوں کے حوالے سے ایسے شعر گنگنایا کرتی تھیں کہ: ’’اجنبی لوگوں میں ہو تم اور اتنی دور ہو ایک کھٹکا سا لگا رہتا ہے روزانہ ہمیں‘‘ افسوس !کہ موجودہ دور میں معاملہ دل سے بڑھ کر جان تک پہنچ چکا ہے۔اس لیی محبت کرنے والے وفا سے زیادہ دوست کی خیریت کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ اب تو ٹیلیویزن بھی اس لیی دیکھے جاتے ہیں کہ کہیں شہرِ دوست میں کوئی دھماکہ تو نہیں ہوا!! اور جب جھپکتی ہوئی پلکوں کی طرح ٹی وی چینل پر ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے الفاظ ظاہر اور غائب ہونے لگتے ہیں تب اس ملک کے لوگوں کے دلوں کی دھڑکن تبدیل سی ہوجاتی ہے۔پھر ایک اور دھماکے کی خبر کے بعد ہزاروں ہاتھوں کی انگلیاں اپنے پیاروں کے نمبرز ڈائل کرنے لگتی ہیں اور موبائل فونوں کا نیٹ ورک جام ہو جاتا ہے۔ایس ایم ایس رک رک کر آنے لگتے ہیں۔ لوگ اپنوں کی خیریت معلوم کرنے کی فکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس ماحول سے عوام کی ذہنوں پر کون سے اثرات مرتب ہو رہیں ہیں؟ اس سوال کا جواب تو کوئی ماہرِ نفسیات ہی دے سکتا ہے مگر ہمارے لیی یہ المیہ بہت ہے کہ ہم اپنے ملک کے دارالحکومت میں کہیں جانے سے قبل ایک دو نیوز چینلز کی جھلک دیکھ کر ہی نکلتے ہیں۔ اس رات بھی ہم جناح سپر جانے کا سوچ رہے تھے کہ اچانک اسلام آباد کے حوالے سے دھماکے کی خبر نشر ہونے لگی۔جناح سپر کے قریب ایف سی کی چوکی پر خودکش دھماکے کی خبر کو کافی دیر تک دیکھتے رہے۔ اور سوچتے رہے کہ اگر اس ملک کے محافظینِ تخت بھی محفوظ نہیں تو ان لوگوں کے بارے میں کیا کہا جائے جو اپنی گاڑیوں پر ایسی پٹیاں لگوا کر نکلتے ہیں؛ جن پر لکھا ہوتا ہے کہ’’عام شہری‘‘! ایسے دھماکوں کے بعد عام شہریوں کے لیی کافی دیر تک وہ راستے بند رہتے ہیں؛ جن کو پولیس کی زبان میں ’’کارڈن آف‘‘ کرنا کہا جاتا ہے۔مگر جناح سپر کے اطراف میں ’’عام شہری‘‘ نہیں رہتے۔ اس لیی دھماکے والی رات نجی چینلز پر یہ پٹیاں چلتی رہیں کہ ’’حساس علاقے میں بارود کی بو پھیل گئی‘‘ جس علاقے کو میڈیا ’’حساس‘‘ قرار دے رہا تھا وہاں ہمیں حساسیت تو نہیں البتہ امیری ہی نظر آتی ہے ۔ اس طرح اس رات میڈیا کے معرفت ہمارے علم میں یہ اضافہ بھی ہوا کہ’’ امیری کا دوسرا نام حساسیت ہے‘‘ لیکن یہ حساسیت خارجی نہیں۔ داخلی ہوتی ہے۔ یہ حساسیت اپنے لیی ہوتی ہے۔یہ حساسیت ایسی نہیں ہوتی کہ غریب کو دیکھ کر ہاتھ جیب کی طرف بڑھ جائے۔ یہ حساسیت میلے کپڑوں میں بھیک مانگنے کے لیی آنے والی فقیر عورت کو دیکھ کر پاور ونڈو کے بٹن کی طرف بڑھ جاتا ہے ۔ کیوں کہ یہ حساسیت غربت کی بو برداشت نہیں کرسکتی۔ اور جس امیری سے غربت کی بو برداشت نہیں ہوتی اس کلاس سے بارود اور بارود کی وجہہ سے جلے ہوئے انسانی گوشت کی بو کس طرح برداشت ہو سکتی ہے!!؟ اس لیی اس رات دھماکے کی خبر کے بعد کافی دیر تک نجی چینلز پر ’’بارود کی بو‘‘ کا تذکرہ ہوتا رہا۔ پھر دوسرے صبح کو ہم ایف سیون کی طرف روانہ ہوئے۔ ایف سیون کے اس علاقے کا شمار اسلام آباد کے ان علاقوں میں ہوتا ہے؛ جہاں اسلام آبادکے مخصوص نباتاتی حسن کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔جنگلی گھاس کی باہوں میںصاف و شفاف مگر بہت بیقرارسے راستوں کے کناروں پر کھڑے درختوں سے سرخ اور زرد پھولوں کی پنکھڑیاں ان گاڑیوں پر نچھاور ہوتی رہتی ہیں؛جو وہاں بڑی کوٹھیوں سے نکلتی ہیں اور داخل ہوتی ہیں۔وہ گاڑیاں اس وقت پرانی تصور کی جاتی ہیں جب ان گاڑیوں سے وہ خوشبو ختم ہوجاتی ہے؛ جو نئی گاڑیوں کی پہچان ہوتی ہے۔ وہ لوگ خوشبو میں بسنے کے عادی ہیں۔ پرانے ہونے کی جھلک دینے کی وجہہ سے ان کے بیحد مہنگے پکڑوں سے آتی ہوئی امپورٹڈ خوشبو! ان کے گھروں کے باغیچوں سے ٹیوب روز کی خوشبو! ان کے ڈرائنگ روموں سے فرانسیسی پردوں اور اخروٹ کی لکڑی سے بنے ہوئے فرنیچر کی خوشبو! ان کے آرام گاہوں سے امڈتی ہوئی ؛مہنگے خوابوں کی خوشبو!اور اس خواب گاہوں میں ان کی خوشبودار گفتگو! خوشبو کے عادی افراد کے لیی وہ رات بہت بھیانک ہوگی جب ان کے نتھنوں میں بارود کی بو کے ساتھ جلے ہوئے انسانی گوشت کی بو داخل ہوتی ہوگی۔ واقعے والی رات کے صبح کو جب ہم اس علاقے میں داخل ہوئے تو بہت تکلیف محسوس ہو رہی تھی اس چوکی کو دیکھ کر جو خودکش حملے کا نشانہ بنی تھی۔بڑے بنگلوں کے بیچ کھڑے درختوں کے نیچے خاردار تاروں کے درمیاں وہ چند خیمے ہی وہ چوکی تھی؛ جس کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تب وہاں شہید ہونے والے اہلکاروں کے بچ جانے والے ساتھی بندوقوں کو تھامے بہت سہمے کھڑے تھے۔ان کی سبز اور نیلی آنکھوں میں کوئی غصہ نہیں بلکہ ایک درد تھا۔ اپنے ان دوستوں کے لیی جن سے ان کی دوستیاں تھیں۔ان کو یاد آ رہے تھے ان کے ہنستے ہوئے چہرے؛شرارت سے مسکراتے ہوئے چہرے اور ان کی وہ باتیں جو صرف دوستوں کے درمیاں ہی ہوتی ہے۔! کہتے ہیں کہ مورچے کی دوستی سفر کی دوستی سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ وہ تو مسافر بھی تھے اور مورچوں کے دوست بھی!وہ دوست جو ایک دھماکے سے گوشت کے ٹکڑوں میں تبدیل ہوگئے اور ان کو سمیٹ کر بھیجا گیا ان پہاڑی دیہاتوں کی طرف جہاں اس وقت پھول کھل رہے ہیں۔ ان کے زندہ بچ جانے والے دوست بھی ان علائقوں کے ہیں۔ اس لیی وہ ڈیوٹی کی وجہہ سے اپنے یاروں کے جنازوں میں شامل بھی نہیں ہو پائے مگر ان کے تصور کی آنکھیں دیکھ رہیں تھیں؛ ان مناظر کو جہاں پھولوں سے پہلے دل کے زخموں کی موسم آگئی۔ سیاہ رنگ کے مہنگے کپڑوں میں ملبوس؛ سیاہ چشمے پہنے ؛ ہاتھوں میں سفید اور گلابی پھولوں کے بکیز اٹھا کر چوکی پر آنے والے ’’سول سوسائٹی‘‘ کے نمائندے ایک افسر کے ساتھ بیٹھ کر ملک کی افسوسناک صورتحال پر خیالات کا اظہار کر رہے تھے اور افسر ان خواتین کو بتا رہے تھے کہ ’’دھماکے میں شہید ہونے والے بیس اکیس برس کے نوجوان تھے‘‘ سول سوسائٹی کے امیر افراد وہاں کھڑے فوٹوگرافرس کے سامنے گل دستے رکھ کر تصویریں بنوا کر روانہ ہوتے گئے۔ اور ہم سوچ میں پڑ گئے کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں؟ کیا ہر خونی واقعے کی جگہہ پر گل دستے لیکر آنے کی انہیں عادت سی ہوگئی ہے؟ یا وہ سمجھ رہے ہیں کہ بکیز سے وہ بموں والی دہشتگردی کی جنگ جیت جائیں گے؟ یا وہ اپنے محافظین کا حوصلہ بڑھانے کے لیی انہیں پھولوں کے تمغے دینے آئے تھے یا اس جگہہ کو مہنگے پھولوں سے بھر دینے کا سبب یہ تھا کہ وہاں کے ’’حساس‘‘ مکینوں سے وہ بو برداشت نہیں ہو رہی تھی؛ جو خودکش حملے کے بعد اس چوکی پر اس وقت بھی موجود تھی! میں نے جھک کر ایک نارنجی رنگ کے پھول کو اٹھایا جس میں بھی بارود کی بو تھی۔ جس وقت ہم فلیٹ پر پہنچے؛ اس وقت نجی چینلز پر ’’چکوال‘‘ کی امام بارگاہ کے دروازے پر ایک اور خوکش حملے کی خبر نشر ہو رہی تھی۔ اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ بارود کی یہ بو پورے ملک میں پھیل رہی ہے۔ اس وقت مجھے یاد آ رہی ہے دوستو وسکی کی ناول ’’ایڈیٹ‘‘ جس میں ناول کا معصوم ہیرو پرنس مشکن قتل کی جانے والی ماریہ فلو پاونہ کی لاش کی بو کو چھپانے کے لیی بہت پھول لاتا ہے۔ممکن ہے کہ بہت سارے پھولوں سے ایک لاش کی بو دب جائے مگر خودکش حملوں میں استعمال ہونے والے بارود کی بو چند گل دستوں سے کس طرح دبے گی؟ مگر کیا ہمارے ملک کے پرنس مشکن جیسی کلاس اس بات کو سمجھ سکے گی!!؟